اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2011 میں مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں
عرب بہار یا حکومت مخالف تحریکوں سے خطے کی معیشت کو 614 ارب ڈالر کا نقصان
ہوا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ ہے اقتصادیات کا جائزہ لینے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے نے اس نوعیت کے اعدادوشمار جاری کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ویسٹرن ایشیا کا کہنا ہے
کہ انقلابی تحریکوں سے ہونے والا یہ نقصان سنہ 2011 سے 2015 کے دوران خطے
کے مجموعی جی ڈی پی کے چھ فیصد کے برابر ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں حکومت مخالف تحریکوں کا آغاز تیونس سے ہوا تھا جس
کے بعد مصر سمیت چار ممالک کے سربراہانِ حکومت کا تحتہ الٹا جبکہ لیبیا،
شام اور یمن میں جنگیں شروع ہو گئیں۔اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ویسٹرن ایشیا نے یہ تخمینہ حکومت مخالف تحریکوں سے پہلے شرح نمو کی
بنیاد پر لگایا ہے۔اس میں اُن ممالک کو بھی شامل کیا گیا ہے جو براہ راست سیاسی کشمکش سے
متاثر نہیں ہوئے لیکن دوسرے ممالک میں جاری تحریکوں کے اثرات کی زد میں آئے
ہیں۔جیسے پناہ گزینوں کی آمد، سیاحت اور ترسیلاتِ زر میں کمی وغیرہ۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں حکومت مخالف مظاہرے خانہ جنگی میں بدل
گئے اور اُس کے بعد دوسری غیر ملکی طاقتیں اُس میں شامل ہو گئی۔رپورٹ کے مطابق شام میں سنہ 2011 کی خانہ جنگی سے ملکی معیشت اور سرمایہ
داروں کو مجموعی طور پر تقریباً 259 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ویسٹرن ایشیا کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ایسے
ممالک میں جہاں سیاسی طور پر اقتدار منتقل ہوا ہے وہاں نئی حکومتیں مسائل
کے حل کے لیے اصلاحات متعارف کروانے میں ناکام رہی ہیں اور یہی وہ مسائل
تھے جو ملک میں انتشار کا سبب بنے تھے۔